!جو قوم تاریخ کو نظر انداز کرتی ہے . اسکا نہ کوئی ماضی ہوتا ہے اور نہ کوئی مستقبل
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بڑے بڑے ہنگاموں اور فتنوں میں ،پہلا نقصان سچائی کا ہوتا ہے .کیوں ؟ کیونکہ ظالموں اور جابروں کے ہاتھ میں سب سے بڑا ہتھیار ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے مطابق حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں .سچائی کے بغیر ہم یہ نہیں دیکھ سکتے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط . سچائی نہ ہو تو باقی صرف جھوٹ اور نہ انصافی ہی بچتی ہے
ایران کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر اگر آپ غور کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ طاقتور کس طرح اپنے مفادات کیلئے جھوٹ کو سچ بنا کر نہ صرف اپنے عوام بلکہ دنیا کے باقی لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں .یہی کچھ عراق ،لیبیا ،شام اور سوڈان میں کیا جا چکا ہے . ایران کے خلاف بھی اسی طرح کے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے .مقصد یہ ہے کہ ایران کی حکومت کو اتنا کمزور کرر دیا جاۓ کہ ملک میں افراتفری پھیل جاۓ اور پھر باہر سے کراۓ کے دہشت گرد ایران میں داخل کر کے حکومت کا تختہ الٹ دیا جاۓ . اور عراق ، شام،لیبیا اور سوڈان کی طرح ایران کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائیں .تاکے مشرق وسطیٰ میں گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار ہو اور عراق ،شام اور لیبیا کی طرح تیل کے ذخائر پر امریکہ کا قبضہ ہو جاۓ . اس طرح چین اور روس کا اثر و رسوخ بھی ایران میں نہ صرف کم بلکہ مکمل ختم ہو جاۓ گا . متحارب گروہ آپس میں اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کیلئے دست و گریبان راہیں گے اور امریکہ آسانی سے تیل کی دولت لوٹ کر اپنا پیٹ بھرتا رہے گا
عرب حکمرانوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ جنگ ایران پر ختم نہیں ہو گی .انکی بھی باری آنی ہے .اگر انھوں نے اسی طرح آنکھیں بند کیے رکھیں تو نہ لبنان رہے گا ، نہ شام ، نہ عراق ، نہ اردن, نہ مصر ، نہ کویت اور نہ سعودی عرب ؟
پاکستان کے آرمی چیف اس وقت امریکی صدر سے لنچ پر ملاقات کر رہے ہونگے . تاریخ میں یہ پہلا موقع ہو گا کہ امریکی صدر کسی بھی ملک کے آرمی چیف سے ملاقات کرۓ گا . یہ ملاقات بلا وجہ نہیں ہو رہی . امریکی صدر کو عاصم منیر سے کچھ خاص چاہیے .اسلئیے اتنی مہربانی ہو رہی ہے . گو اس سے پہلے بھی پاکستانی آرمی چیف امریکی صدور سے ملتے رہے ہیں .لیکن وہ آرمی چیف کی حثیت سے نہیں بلکہ صدر پاکستان کی حثیت سے . مثال کے طور پر ایوب خان دو مرتبہ امریکہ گۓ ایک بار صدر کینیڈی اور دوسری بار صدر لینڈن جا نسن کی دعوت پر . صدر ضیاالحق کو صدر ریگن نے دورے کی دعوت دی .صدر مشرف نے ،امریکی صدر بش جونیئر کے دور میں امریکہ کا دورہ کیا
ایک بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آرمی چیف کی امریکی صدر سے یہ ملاقات ایران کے تناظر میں ہو سکتی ہے .اس ملاقات کا پاکستان کے اندرونی حالات سے کوئی خاص تعلق نہیں ہو سکتا .کیونکہ امریکی متعدد مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں فوجی جنرلز سے بات کرنا انکےلئے زیادہ آسان ہوتا ہے .پاکستان میں حکومت جس کی بھی ہو .امریکہ کو اپنے مفادات سے غرض ہوتی ہے
امریکی صدر کے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ وہ ایران کے خلاف فوجی کاروائی کرنا چاہتے ہیں .اس مقصد کیلئے انھیں پاکستان کی مدد درکار ہو گی . ہو سکتا ہے کہ امریکی صدر اس بارے میں جنرل عاصم منیر کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کریں .تاکے پاکستان سے ایران کے خلاف ایک اور محاز کھولا جا سکے . اور ان بلوچوں کو جو ایران کے خلاف ہیں .انھیں ایرانی حکومت کے خلاف استعمال کیا جاۓ
ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ جنرل عاصم منیر ایران کے خلاف امریکی اتحاد کا حصہ بنیں گے یا نہیں . لیکن اگر پاکستان امریکی اتحاد میں شامل ہو کر ایران کے خلاف کسی کاروائی کا حصہ بنتا ہے .تو یہ پاکستان کے مستقبل کیلئے اچھا نہیں ہو گا . ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ اگر امریکہ اور اسرائیل اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہماری ایران کے ساتھ لگنے والی سرحد بھی محفوظ نہیں رہے گی .اور اسرائیلی ہمارے سر پر بیٹھے ہونگے
اسرائیل کو ہمارا ایٹمی پروگرام بھی بہت کھٹکتا ہے اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ اسرائیل ایک بار پہلے بھی ہماری ایٹمی تنصیبات پر حملے کی کوشش کر چکا ہے .اس مقصد کیلئے وہ ہمیشہ بھارت کی مدد کرتا رہا ہے اور اب بھی کر رہا ہے . اسکے علاوہ پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر بھی بات ہو سکتی ہے . ہو سکتا ہے امریکی صدر دونوں معاملات پر ہمارے آرمی چیف کو قائل کرنے کی کوشش کریں . امریکہ کیا چاہتا ہے بہت جلد سامنے آ جاۓ گا . کیونکہ امریکہ جس طرح اپنے بحری بیڑے اور جنگی ہوائی جہاز ایران کے قریب اکھٹے کر رہا ہے .اس سے تو لگتا ہے کہ ایران پر جلد امریکی حملہ متوقع ہے
دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بن کر پہلے بھی ہم نے اپنا ہی نقصان کیا تھا .کیا ایران کے خلاف امریکی اور اسرائیلی جنگ کا حصہ بن کر ہم وہی غلطی دہرانے جا رہے ہیں ؟یا ہم یہ ثابت کرنے پر تلے ہوۓ ہیں .کہ ہم وہ ہیں جو تاریخ سے کبھی نہیں سیکھیں گے اور بار بار وہی غلطی کریں گے .جس سے پہلے بھی بارہا نقصان اٹھا چکے ہیں