بڑی طاقتوں کے مفادات ہوتے ہیں دوستیاں نہیں . یہ جملہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات بنیادی طور پر ذاتی یا جذباتی بندھنوں کے بجاۓ .بڑی طاقتوں کے اپنے اپنے قومی مفادات کے تحفظ کی حکمت عملی کےمطابق چلتے ہیں .اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاستیں اپنے اپنے قومی مفادات کو ترجیح دیتی ہیں .جو وقت کے ساتھ بدل سکتے ہیں
ایک برطانوی سیاستدان لارڈ پا مر سٹن جو دو مرتبہ برطانیہ کے وزیر اعظم بھی رہے .کہا تھا کہ ….ہمارا کوئی ازلی حلیف نہیں اور نہ کوئی ہمارا دائمی دشمن ہے .بلکہ ہمارے مفادات ابدی اور دائمی ہیں .ان کا کہنا تھا کہ سیاسی اتحاد اکثر عارضی ہوتے ہیں اور دیرپا دوستی کے بجاۓ باہمی فائدے پر مبنی ہوتے ہیں
پاکستان کو دنیا کے ان ممالک میں شامل کیا جا سکتا ہے . جہاں پر قابض اشرافیہ نے ہمیشہ اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دی ہے آزادی سے لیکر آج تک کی ہماری تاریخ اس کی گواہ ہے .قائد اعظم کی وفات کے بعد سے مسلط رہنے والے سیاسی اور فوجی ٹولے نے ہمیشہ اپنے مفادات کو قومی مفادات پر مقدم رکھا . عوام کو جھوٹے نعروں اور ترانوں کے پیچھے لگاۓ رکھا
ایک اور گروہ جس نے اس ملک کی سمت کبھی درست نہیں ہونے دی .وہ ہے مذہبی رہنما ،خود ساختہ مذہب کے ٹھیکے دار . ہماری تاریخ گواہ ہے کہ اس طبقے نے نہ کبھی اسلام کی کوئی خدمت کی ،نہ کبھی عوام کے حقوق کیلئے آواز اٹھائی . ہاں انھوں نے اپنے اپنے فرقے کے مفادات کے تحفظ کیلئے خوب لڑائی لڑی . عوام کو انسانی ہمدردی ، حسن سلوک اور برابری کا درس دینے والے .خود اشرافیہ کی برابری کرنے میں سرگرم عمل رہتے ہیں .اربوں کے گھروں اور کروڑوں کی گاڑیوں میں گھومنے والے ، عوام کو صبر کی تلقین کرتے نہیں تھکتے
جبکہ خود اپنا حصہ بقدر جثہ ، وصول کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے
نہ کوئی ہمارا ..آئرن برادر ہے . (چین ) ….نہ کوئی دینی بھائی (سعودی عرب )….اور نہ کوئی دوست ،بڑا بھائی (امریکہ )….سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں .جن کے تحفظ کیلئے وہ سب کوشاں ہیں .جبکہ ہماری حکمران اشرافیہ صرف اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے کبھی ایک کے ترلے کرتی ہے کبھی دوسرے اور کبھی تیسرے کے ….اس پنگ پانگ کے کھیل میں انھوں نے عوام کی اکثریت کو ایسے عذاب میں مبتلا کر دیا ہے .جس سے نکلنا اب نا ممکن ہوتا جا رہا ہے